نصیحت اور اصلاح
میرےبیٹے کی عمر سات سال ہے حد سے زیادہ شرارتی ہے میرے کام کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ دو ہفتے اورکبھی ایک ماہ گھر سے دور رہنا ہوتا ہے۔ اس دوران بیو ی اور بچہ اپنے گھر کے بجائے نانی کے گھر رہتے ہیں۔ مجھے گھر آنے کے بعد شکایات سننے کو ملتی ہیں تو بچے پر سختی کرتا ہوں۔ میرے غصے پر وہ مجھے حیران ہوکر دیکھتا ہے جیسے اس نے کچھ کیا ہی نہیں‘ تب دل ہی دل میں مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے اس کو تکلیف دی وہ مجھے برا نہ سمجھنے لگے۔ (عمرجاوید،فیصل آباد)
مشورہ:سات سال کی عمر کا بچہ دو ہفتے یا ایک ہفتے کی ساری شرارتیں آپ کو دیکھ کر یاد نہیں کرسکتا۔ اگر اس کو احساس دلایا جائے تب بھی و ہ اپنی غلطیوں کا ایسا اندازہ نہیں کر پائے گا جیسا کہ غلطی کے وقت کرسکتا ہے یا کسی نقصان پر ہوتا ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ بچے کو غلطی، جرم یا کسی بدتمیزی کرنے پر فوراً ہی نصیحت کی جائے۔ یہ کام اس کی والدہ بھی بہتر کرسکتی ہیں۔ نانی کے گھر اس بات کی اجازت نہ ہو کہ جو چاہے بچے کی پٹائی کردے اور پھر والد کے آنے پر مزید سزا دلوائی جائے۔ آپ بچے سے ملاقات پر خوشی اور گرم جوشی کا اظہار کریں۔ اس کے بعد جو وقت اس کے ساتھ گزاریں اس میں نصیحت اور اصلاح دوستانہ انداز میں کرتے رہیں۔
ہر روزاک نئی کہانی وہ بھی جھوٹی
ایک دوست اپنے گھر کی باتیں کرتی تو میں حیران ہو جاتی‘ ایک روز اس نے بتایا کہ اس کی امی نے اس کی تصویر کمرے کی پوری دیوار پر بنوائی ہے‘ وہ گھر لے جاکر ہمیں اپنا کمرہ دکھائے گی۔ مجھے بہت تجسس ہوا اور میں نے اس کے گھر جانے کا ذکر کیا اس نے بات ٹال دی پھر میں بغیر بتائے اپنی بہن کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی۔ اس نے ہمیں دیکھتے ہی اپنے کمرے کا دروازہ بند کردیا۔ اس کی والدہ سے ملاقات پر ہم نے اپنے آنے کی وجہ بتائی تو وہ بہت ہنسیں اور کہنے لگیں یہ تو بچپن سے ایسی ہی باتیں کرتی ہے اسے کوئی شرمندگی بھی نہ تھی۔وہ ہر وز ایک نئی کہانی بناتی وہ بھی جھوٹی! (افشین، راولپنڈی)
مشورہ:آپ کی دوست نے اپنی خواہش سے مجبور ہوکر غلط بیانی سے کام لیا۔ یہ اہم نفسیاتی مسئلہ ہے کیونکہ اس طرح لوگوں کی جو توجہ ان کو حاصل ہوتی ہے وہ ان کی ذہنی آرزوئوں کی تسکین کا سبب بنتی ہے۔ ایسے لوگوں کو ذہنی طو ر پر پختہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ اپنے جھوٹ کے اس نتیجے میں وقتی طور پر بے خبر رہنا چاہتے ہیں جو بعد میں شرمندگی پیدا کرتا ہے۔ ایک بار حقیقت جان کر لوگ ان کی بات کا اعتبار کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ماہر نفسیات سے مشاورت بہتر ہوتی ہے۔
سنجیدہ اور باعمل لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں
میں محنتی لڑکا ہوں۔ پڑھائی کے ساتھ جاب بھی کرتا ہوں۔ آج کل باکسنگ کا شوق ہوگیا ہے۔ صبح کھیل اور رات کو پڑھائی کروں گا۔ لوگ کہتے ہیں تم دو کام ساتھ نہیں کرسکتے۔ مجھ میں صحافی اور مصنف بننے کی بھی صلاحیت ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ میں ایک اچھا لکھنے والا بن سکتا ہوں۔ اس کے علاوہ دو کام ایک ساتھ کرسکتا ہوں۔ (محمد شاہ زیب، فیصل آباد)
مشورہ:لوگ آپ کے بارے میں آپ سے زیادہ نہیں جانتے، اس لیے جتنے کام کرسکتے ہیں کریں۔ لوگوں پر اپنے ارادے قبل از وقت ظاہر نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ ضروری نہیں کہ وہ آپ کا حوصلہ بڑھائیں۔ ان کی طرف سے کیا گیا اختلاف ذہنی الجھن اور عدم اعتماد کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ پڑھائی صبح کریں کیونکہ اس وقت دماغ تھکا ہوا نہیں ہوتا۔
گھر والے میری شادی نہیں کرتے
مجھے اٹھارہ سال سے ڈپریشن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ میرے گھر والے اکثر اوقات میری خواہشات کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ شادی بھی نہیں کرتے۔ (نعیم، قصور)
مشورہ:ڈیپریشن کی وجہ خواہشات کی عدم تکمیل نہیں ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ پہلے سے مایوسی کی کیفیت ہو اور کسی خواہش کی تکمیل نہ ہونے پر اس میں اضافہ ہو جائے۔ اکثر نفسیاتی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے انسان کو خود بہت محنت کرنی پڑتی ہے کیونکہ اس حال میں الجھنیں اور مسائل ناقابل حل معلوم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی کیفیت کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خودرحمی کی آغوش میں پناہ حاصل کرلیتا ہے۔ اپنی خواہشات کی تکمیل خود کرنے کے لائق ہوں گے تو مخالفتوں کا سامنا بھی نہ ہوگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں